Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔

جنات کا پیدائشی دوست‘علامہ لاہوتی پراسراری……قسط نمبر 166

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2023ء

پانی میں بھنور ‘ جنات سے کیا تعلق؟

جنات جنگلوں پہاڑوں دریاؤں اور نہروں میں بہت زیادہ رہتے ہیں پانی کے کنارے جنات کا وجود آخری درجہ میں بہت زیادہ دریا‘ نہر‘ ندیاں‘ جھیلیں‘ حتیٰ کہ پانی کے چشمے اور جو آبشاریں جن کے اوپر سے پانی گررہا ہوتا ہے ان میں جنات کا وجود واضح نظر آتا ہے‘ آپ کو ایک حیرت کی بات بتاتا ہوں آپ دریا میں کبھی ایک چیز دیکھی ہوگی وہ ہے کہ پانی چلتے چلتے دریا میں پانی کو غوطہ آتا ہے اور پانی ایک چکر کاٹتا ہے جس کو بھنور کہتے ہیں ۔یہ کیا ہوتا ہے؟ کبھی آپ نے سوچا‘ یہ حقیقت ہے اور سوفیصد حقیقت ہے۔

 آئیں! آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں:۔بہت پرانی بات ہے ہوا کچھ یوں کہ میرے والد رحمۃ اللہ علیہ کو علم تھا میں جنات سے ملاقات کے لیے جارہا ہوں‘ تو وہ بھی اس دن میرے ساتھ چل دئیے‘ اور ہم دونوں دریا کے کنارے پہنچ گئے۔ ہم بیٹھے تھے تو اچانک جنات میں سے ایک جن اٹھا اس نے زور سے پانی میں ڈبکی لگائی اور اس کے ڈبکی لگاتے ہی بالکل وہی کچھ ہوا جیسے کہ پانی کو گول چکر آتا ہےیعنی پانی میں بھنور نمودار ہوتا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا‘ وہ بھنور  دراصل جن کی ڈبکی تھی‘ تھوڑی دیر بعد جن واپس آیا اور نیچے سے ایک پتھر اٹھا کر لے آیا‘ اس پتھر کے اندر ایک موتی جڑا ہوا تھا‘ اس نے مجھے وہ پتھر دیا۔

ظلمت اور نحوست زدہ موتی

 کہنے لگا: یہ موتی ایک بہت بڑے بادشاہ کے سر کےتاج پر جڑا ہوا تھا۔ یہ موتی  بہت قیمتی ہے‘ یہ صدیوں سے دریا کی تہہ میں پڑا ہواتھا‘ آج  سامنے آیا‘ میں نے غوطہ لگایا اور یہ پتھر میں وہاں سے ڈھونڈ کر لے آیا اور مجھے پتھر دیا۔ میں نے پتھر دیکھا تو مجھے اس پتھر میں ظلمت اور نحوست محسوس ہوئی۔ میں نے کہا یہ میں نے نہیں لینا‘ کہنے لگا: آپ لے لیں‘ میری طرف سے تحفہ ہے‘ کروڑوں میں اس کی قیمت ہے۔ میں  نے کہا: اس میں ظلمت‘ نحوست نظر آرہی۔ کہنے لگا: میں اس چیز کوواضح کردیتا ہوں‘ اُٹھا اسی جگہ جاکر غوطہ لگایا‘ پانی کے اندر گیا‘پھر بھنوراٹھا اور جن غائب ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ جن واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں بہت زیادہ مٹی تھی‘ کہنے لگا: یہ مٹی اُسی بادشاہ کے جسم کی ہے‘ میں ڈھونڈ کر لے آیا ہوں‘ اس نے مٹی کو پھیلایا ‘مٹی کو پھیلانے کے بعد اس نے مٹی سے انسانی وجود بنانا شروع کردیا‘ ایک چھوٹا سا انسانی وجود اس نے بنایا پھر اس انسانی وجود کے سر کے اوپر وہ پتھر رکھ دیا اور پتھر رکھنے کے بعد اس نے کچھ پڑھنا شروع کردیا۔

ظالم بادشاہ اور مظلوم کے سر قلم

 میں اور میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ حیرت سے یہ چیز دیکھ رہے تھے‘ تھوڑی دیر ہوئی اس پتھر سے بھاپ نکلنا شروع ہوگئی اور پھر وہ پتھر سرخ ہوگیا لیکن اس کے اندر جو موتی جڑا ہوا تھا اس کے اندر کوئی تبدیلی نہ آئی ۔اس موتی میں سے سرخ رنگ کی لہریں نکلنا شروع ہوئیں جو بعد میں سفید ہوگئیں اور ان سفید لہروں سے ایک وجود سامنے آیا اور اب اس وجود کا جو حلیہ سامنے آیا وہ میں آپ کو بتاتا ہوں:۔

تھوڑی دیر ہوئی ایک میدان نظر آیا اور اس میدان میں ہر طرف دیواریں جیسے بہت بڑاقلعہ ہے اور قلعہ کے اندر بادشاہ کی محفل عام یعنی دیوان عام ہے۔ ہر طرف آدمی نظر آئے کچھ سادہ شکلوں میں کچھ بہت اچھی پاشاقوں میں کچھ بہت بڑی نشستوں میں اور ایک بہت بڑا تخت نظر آیا بہت بڑا بادشاہ جس کی بہت ہلکی ڈاڑھی اور بہت بڑی مونچھیں‘بڑی زلفیں ‘ سر پر بہت بڑا تاج‘ دائیں طرف اس کے تلوار سونپیں محافظ ہر طرف سناٹا خاموشی ۔تھوڑی دیر کے بعد ایک آواز بلند ہوئی‘ باادب ہوشیار کہ بادشاہ سلامت اپنی گفتگو فرمائیں گے!پھربادشاہ نے اپنی گفتگو کی‘ کسی اور زبان میں تھی جو عمومی سمجھ میں نہیں آرہی تھی‘ اس گفتگو کے بعد تھوڑی ہی دیر میں ایک آدمی کو سامنے لایا گیا اور وہ بظاہر مجرم تھا‘ تھوڑی ہی دیر میں ایک بہت بڑا فرش بچھایا گیا جو چمڑے کا تھا جس کے ہر طرف کونے تھے‘ اس بندے کو وہاں باندھ دیا گیا پھر ایک جلاد نے آکر اس پر تلواریں برسانا شروع کردیں‘ پہلے اس کی ایک چیخ نکلی‘ پھر اس کی ساری چیخیں خون میں لت پت ہوگئیں‘ اب بادشاہ سلامت بہت خوشی سے قہقہے لگارہے تھے۔

زندہ انسان کو بھوکے چوہوں کی خوراک بنادیا

بادشاہ کے علاوہ تمام لوگ سہمے ہوئے تھے اور سہمی سہمی نظروں سے سارا منظر دیکھ رہے تھے پتہ چلا کہ وہ بادشاہ کی فوج کا ایک بہت بڑا آدمی تھی جس نے بادشاہ کے ظلم و ستم کو نہ سہتے ہوئے علیحدگی کا اعلان کردیا‘ آج کے بعد بادشاہ سے میرا کوئی تعلق نہیں اور بادشاہ کو اپنے تعلق میں نہیں رکھنا چاہتا‘ لہٰذا میں بادشاہ کی ملازمت سے استعفیٰ دیتا ہوں‘ بس اس نے صرف استعفیٰ دیا‘ بادشاہ کے خلاف کوئی ایسی بات نہیں کی‘ نہ کوئی ایسی زبان استعمال کی لیکن بادشاہ کو یہ بات ناگوار گزری‘ پہلے قید کیا‘ قید بہت زیادہ اذیت دی‘ جیل کے قید خانہ میں ڈالا جہاں بہت بڑے بڑے چوہے تھے‘ ان چوہوں کو بھوکا رکھا ہوا تھا اور اس شخص کو اس جیل میں ڈال دیا‘ بھوکے چوہے اس پر جھپٹے‘ اس کے جسم کو نوچتے تھے‘ یہ بھاگتا الجھتا لیکن چوہے اس کے پیچھے تھے اور چوہوں نے تین دن‘  تین راتیں اس کے جسم کو نوچ ڈالا‘ اور چوہوں کا جب تک  پیٹ نہیں بڑھتا تھاوہ اس کو نہیں چھوڑتے تھے پھر بھوکے ہوتے تھے پھر اس کے جسم کو نوچتے تھے‘ نہ کھانا نہ پانی آخری اذیت میں رکھا اور تین دن کے بعد بادشاہ نے اپنی رعایا میں عمومی اعلان کیا کہ ایک باغی کا عبرتناک انجام اگر دیکھنا ہے تو آؤ میں تمہیں عبرتناک انجام دکھاتا ہوں۔ 

ناقابل برداشت‘ یہ منظر دکھاناختم کردیں

بادشاہ نے عبرتناک انجام دکھانے کیلئے یہ سارا نظام بنایا‘ یہ سب کچھ میں سامنے دیکھ رہا تھا‘ اس سفید دھوئیں کے اندر اور وہ سفید دھواں سوفیصد ایک ڈاکومنٹری بن گیا تھا جس میں  حیرت انگیز طور پر ہر چیز واضح نظر آرہی تھی‘ محسوس ہورہا تھا کہ بادشاہ کی زندگی میں یہ سب کچھ تھا پھر تھوڑی ہی دیر ہوئی ایک اور منظر سامنے آیا کچھ لوگوں کی لائن لگی ہوئی ہے‘  بادشاہ نے ہاتھ میں تلوار پکڑی ہوئی ہے ‘ سب لوگوں کو لکڑی سے باندھا گیا تاکہ نہ بھاگ سکیں‘ نہ اپنی جگہ چھوڑ سکیں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بادشاہ اٹھا‘ اس نے اپنی تلوار نکالی‘ بادشاہ نے اپنی شاہی لباس پر ایک اور لباس پہنا ہوا تھا‘ معلوم ہوا یہ لباس اس لیے ہے کہ ان کا خون اور اس کی دھاڑیں بادشاہ کے شاہی لباس کو داغدار نہ کرے اور بادشاہ تلوار سے ان کے سر قلم کرتا جارہا تھا۔ ایک شخص پر تلوار کا وار ہلکا ہوا اس کی گردن لٹک گئی تو بادشاہ نے غصہ سے اس کے اوپر ایک اور وار کیا اور اتنا تیز وار کیا کہ وہی ایک وار ہی ساتھ کھڑے دوسرے کا سر بھی تن سے جدا کرگیا‘ یہ منظر خوفناک اور دردناک تھا میں اور میرے والد رحمۃ اللہ علیہ برداشت نہ کرسکے‘ آنکھوں کے سامنے چکر آنےلگے ‘آنکھیں بند کرلیں‘ آنکھیں بند کرتے ہی وہ سارا منظر ایک دم غائب ہوگیا‘ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا ہے اس سے پہلے کہ ظلم و ستم کی مزید کوئی کہانی دیکھیں ‘فوراً میں اس جن سےکہا اس کو بند کردے۔

ظلمت زدہ پتھر جن کے گھر گیا تو کیا ہوا

اب اس جن نے کہا آپ نے سچ کہا یہ موتی (بڑا پتھر) دراصل اس کے سر کا تاج تھا اور قیمتی پتھر ہے ‘بادشاہبہت ظالم تھا اور اسی پتھر کو پہن کر سارے ظلم و ستم کرتا تھا اور یہ سب کچھ وہ ساری زندگی کرتا رہا۔ میں نے فوراً وہ پتھر اس کو واپس کردیا‘ میں نے کہایہ میں نہیں لوں گا‘ اس پتھر میں نحوست‘ ظلمت اور خون ہی خون ہے اورخون بھی وہ جو مظلوم کا خون ہے لیکن اس جن نے وہ پتھر اپنے پاس رکھ لیا‘کچھ عرصہ کے بعد اس جن نے اپنا ایک واقعہ سنایا: کہنے لگے جب سے وہ پتھر میرے گھر میں گیا ہے گھر میں  بیماریاں‘ تکالیف‘ مشکلات‘ مسائل‘ ناکامیاں طرح طرح کے ظلم وستم اور دکھ میری زندگی میں شامل ہوگئے ہیں اور میرا گھر سارا کا سارا اسی ظلم و ستم اور مسائل میں الجھا ہوا ہے اور مجھے آ پ کا احساس ہوا کہ آپ نے آخر اس پتھر کو کیوں نہ قبول کیا ‘ اس پتھر کو ہم نے اپنی زندگی میں شامل کرلیا‘ آپ نے شامل نہ کیا۔

زندگی میں شامل ہونے والی ہرچیز کا اثر

 میں نے اس جن کو کہا ہماری زندگی پر ہر چیز کا اثر ہوتا ہے چاہے وہ محسوس ہو یا نہ ہو‘ ہر چیز ہماری زندگی پر اثر رکھتی ہے اور ایک تاثر رکھتی ہے‘ اس کی وجہ سے ہماری زندگی میں خیر بھی شامل ہوتی ہےا ور شر بھی شامل ہوتا ہے‘ منفی اثرات اور مثبت اثرات بھی ہوتے ہیں۔ لہٰذا اپنی زندگی میں کوئی بھی ایسی چیز شامل نہیں کرنی چاہیےجس میں شر کا ذرہ بھی ہو‘ اپنی زندگی میںہر چیز کو سوچ سمجھ کر شامل کرنا چاہیے یہ دیکھنا چاہیے کہ میں حاصل کیا کررہاہوں؟ کیا یہ چیز میری زندگی میںآکر میرے دکھوں‘ تکالیف ‘مشکلات اور مسائل کا ذریعہ بنے گی یا خوشیوں کا ذریعہ؟آئیں! ہم دیکھیں اور ضرور دیکھیں اور تسلی سے دیکھیں کہ زندگی بس ہر چیز کو پانے کا نام نہیں‘ پانے سے پہلے یہ دیکھیں کہ اس کو پانے سے میری زندگی میں سکھ‘ سکون‘مسائل‘ پریشانیاں تو نہیں آئیں گی‘ میں جن کو یہ ساری باتیں بتارہا تھا وہ حیرت سے دیکھ رہا تھا‘ میں نے جن کومزیدکہا کہ ابھی اٹھو اس پتھر کو گھر سے نکالو‘جاؤ دریا میں اسی جگہ رکھ کر آؤ جس جگہ سے لیا تھا۔ وہ اٹھا تھوڑی ہی دیر کے بعد واپس آگیا۔

پانی کے اندر بادشاہ کی حاضری

 کہنے لگا: میں نےاپنے گھر سےپتھر لیا اور دریا کے اس حصے پر رکھ کر واپس آگیا‘ پھر جن نے ایک عجیب بات بتائی ‘کہنے لگا جب پتھر رکھنے گیا( لیتے ہوئے غور نہیں کیا) تو رکھتے ہوئے  میں نے غور کیا تو وہاںکچھ اور پتھر بھی تھے اور یہ بڑا موتی (بادشاہ کے سر کے تاج کا موتی) ان کے درمیان میں ڈھکا ہوا تھا‘ پانی کے باوجود تھوڑی دیر ہوتی تھی وہ پتھر گرم ہوجاتے تھے اور اس پتھر کو گرم کرتے ‘ اس پتھر کے گرم ہوتے ہی اس پتھر سے چیخیں نکلتیں چونکہ اب میں نے وہ بادشاہ کا چہرہ دیکھ لیا ہے اب تو مجھے احساس ہوا ہے کہ وہ چیخیں دراصل اسی بادشاہ کی تھیں ‘ میں نے اس دردناک منظر کو دیکھا پھر وہیں ان پتھروں کے درمیان مٹی کا وجود بنا کر بادشاہ کی وہ سفید دھوئیں والی حاضری کروائی چونکہ پانی ہمیں کچھ نہیں کہتا ‘ہم پانی کے درمیان بھی جگہ بنالیتے ہیں جو کہ سوفیصد خشک ہوتی ہے‘ ہمارے بے شمار جنات جو لاکھوں کروڑوں میں ہیں جو پانی کے اندر سمندر‘ دریا‘ نہروں اور جھیلوں میں رہتے ہیں‘ پانی انہیں کچھ بھی نہیں کہتا ‘ سب کچھ جو کچھ بھی ہے‘ وہ پانی کے اندر ہوتا ہے۔ 

ظالم بادشاہ اور موت کے بعد بربادی

پھر میں نے وہ پانی کے اندر بادشاہ کی حاضری کروائی‘ بادشاہ سے پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا: ایک ایک شخص کی کھوپڑی پتھر بن چکی ہے‘ وہ تمام کھوپڑیاں مجھے روز تکلیف دیتی ہیں چونکہ یہ پتھر میری کھوپڑی یعنی تاج پر تھا اس لیے مجھے دن رات یہ اذیت ملتی ہے‘ جتنے لوگوں کو آج تک میں نے قتل کروایا یا اپنے ہاتھوں سے کیا وہ سب کچھ میرے وجود میں سرائیت کررہا ہے‘ میں اندھا‘ گونگا‘ بہرہ‘ اپاہج‘ ویران اور برباد ہوچکاہوں‘ میرا سب وجود ختم ہوچکا ہے اورموت کے بعد اب بربادی ہی بربادی ہے‘ ناکامی ہی ناکامی ہے۔ کوئی مجھے چھڑا نہیںسکتا‘ کوئی میرے قریب آنہیں سکتا‘ کوئی میرا ہمدرد ہمدم ساتھی نہیں۔ میں اکیلا تنہا ہوں اور میرا کوئی ساتھی نہیں‘ بس یہی میری زندگی ہے اور یہی میرا سب کچھ ہے۔میں دریا کے کنارے بیٹھا اس جن کی باتیں سن رہا تھا اور وہ سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا اور مجھے احساس ہوا کہ پانی کے کنارے بہت جنات رہتے ہیں ‘پانی کے کنارے  رہنے والے جنات میں اکثریت وہ ان جنات کی ہے جو شرپسند‘ گندے‘ غلیظ اور خبیث ہوتے ہیں جو گناہوں اور برائیوں کی طرف دعوت دیتے ہیں جو گناہوں اور برائیوں کی طرف مخلوق کو ورغلاتے ہیں جو گناہوں اور ناکامیوں کا سبق دیتے ہیں‘ اسی لیے پانی کے کنارے مظالم‘ دھوکے‘ ڈاکے‘ فریب‘ گناہ اور بدکاریاں اور ان کا وجود زیادہ ہوتا ہے۔ 

کشتی میں بیٹھ کر جو بھی سمندر‘ دریا‘ ندیاں پار کرتے ہیں‘ ہر کالے اور خبیث جن کی یہ چاہت ہوتی ہے کہ کسی طرح کشتی ڈوب جائے اس کا وجود ختم ہوجائے اور وہ شیطانی نظام سوفیصد ہمارے ہاتھ میں ہو تا‘ انسانوں کو تکلیف دینے کا کوئی لمحہ بھی ضائع نہ کریں‘ ہمارا ہر لمحہ انسانی وجود کے لیے اذیت دکھ‘ تکلیف‘ پریشانی‘ مشکلات اور مسائل کا ذریعہ اور یونہی زندگی مسائل اور پریشانیوں میں گزرتی چلی جائے۔ پانی کے کنارے رہنے والے جنات ہمیشہ صرف ایک چیز سوچتے ہیں کہ کس طرح لوگوں کو دکھ دیا جائے‘ پریشانی دی جائے‘ آپ کے علم میں ہے کہ پانی کے کنارے جادو بہت تیزی سے اثر کرتا ہے‘ جادو بہت تیزی سے اثر کرتا ہے اور جادو کا اثر حیرت انگیز طور پر تیر سے بھی زیادہ اور گولی سے بھی تیز ہوجاتا ہے۔ (جاری ہے)

 

پانی میں بھنور ‘ جنات سے کیا تعلق؟جنات جنگلوں پہاڑوں دریاؤں اور نہروں میں بہت زیادہ رہتے ہیں پانی کے کنارے جنات کا وجود آخری درجہ میں بہت زیادہ دریا‘ نہر‘ ندیاں‘ جھیلیں‘ حتیٰ کہ پانی کے چشمے اور جو آبشاریں جن کے اوپر سے پانی گررہا ہوتا ہے ان میں جنات کا وجود واضح نظر آتا ہے‘ آپ کو ایک حیرت کی بات بتاتا ہوں آپ دریا میں کبھی ایک چیز دیکھی ہوگی وہ ہے کہ پانی چلتے چلتے دریا میں پانی کو غوطہ آتا ہے اور پانی ایک چکر کاٹتا ہے جس کو بھنور کہتے ہیں ۔یہ کیا ہوتا ہے؟ کبھی آپ نے سوچا‘ یہ حقیقت ہے اور سوفیصد حقیقت ہے۔ آئیں! آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں:۔بہت پرانی بات ہے ہوا کچھ یوں کہ میرے والد رحمۃ اللہ علیہ کو علم تھا میں جنات سے ملاقات کے لیے جارہا ہوں‘ تو وہ بھی اس دن میرے ساتھ چل دئیے‘ اور ہم دونوں دریا کے کنارے پہنچ گئے۔ ہم بیٹھے تھے تو اچانک جنات میں سے ایک جن اٹھا اس نے زور سے پانی میں ڈبکی لگائی اور اس کے ڈبکی لگاتے ہی بالکل وہی کچھ ہوا جیسے کہ پانی کو گول چکر آتا ہےیعنی پانی میں بھنور نمودار ہوتا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا‘ وہ بھنور  دراصل جن کی ڈبکی تھی‘ تھوڑی دیر بعد جن واپس آیا اور نیچے سے ایک پتھر اٹھا کر لے آیا‘ اس پتھر کے اندر ایک موتی جڑا ہوا تھا‘ اس نے مجھے وہ پتھر دیا۔ظلمت اور نحوست زدہ موتی کہنے لگا: یہ موتی ایک بہت بڑے بادشاہ کے سر کےتاج پر جڑا ہوا تھا۔ یہ موتی  بہت قیمتی ہے‘ یہ صدیوں سے دریا کی تہہ میں پڑا ہواتھا‘ آج  سامنے آیا‘ میں نے غوطہ لگایا اور یہ پتھر میں وہاں سے ڈھونڈ کر لے آیا اور مجھے پتھر دیا۔ میں نے پتھر دیکھا تو مجھے اس پتھر میں ظلمت اور نحوست محسوس ہوئی۔ میں نے کہا یہ میں نے نہیں لینا‘ کہنے لگا: آپ لے لیں‘ میری طرف سے تحفہ ہے‘ کروڑوں میں اس کی قیمت ہے۔ میں  نے کہا: اس میں ظلمت‘ نحوست نظر آرہی۔ کہنے لگا: میں اس چیز کوواضح کردیتا ہوں‘ اُٹھا اسی جگہ جاکر غوطہ لگایا‘ پانی کے اندر گیا‘پھر بھنوراٹھا اور جن غائب ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ جن واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں بہت زیادہ مٹی تھی‘ کہنے لگا: یہ مٹی اُسی بادشاہ کے جسم کی ہے‘ میں ڈھونڈ کر لے آیا ہوں‘ اس نے مٹی کو پھیلایا ‘مٹی کو پھیلانے کے بعد اس نے مٹی سے انسانی وجود بنانا شروع کردیا‘ ایک چھوٹا سا انسانی وجود اس نے بنایا پھر اس انسانی وجود کے سر کے اوپر وہ پتھر رکھ دیا اور پتھر رکھنے کے بعد اس نے کچھ پڑھنا شروع کردیا۔ظالم بادشاہ اور مظلوم کے سر قلم میں اور میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ حیرت سے یہ چیز دیکھ رہے تھے‘ تھوڑی دیر ہوئی اس پتھر سے بھاپ نکلنا شروع ہوگئی اور پھر وہ پتھر سرخ ہوگیا لیکن اس کے اندر جو موتی جڑا ہوا تھا اس کے اندر کوئی تبدیلی نہ آئی ۔اس موتی میں سے سرخ رنگ کی لہریں نکلنا شروع ہوئیں جو بعد میں سفید ہوگئیں اور ان سفید لہروں سے ایک وجود سامنے آیا اور اب اس وجود کا جو حلیہ سامنے آیا وہ میں آپ کو بتاتا ہوں:۔تھوڑی دیر ہوئی ایک میدان نظر آیا اور اس میدان میں ہر طرف دیواریں جیسے بہت بڑاقلعہ ہے اور قلعہ کے اندر بادشاہ کی محفل عام یعنی دیوان عام ہے۔ ہر طرف آدمی نظر آئے کچھ سادہ شکلوں میں کچھ بہت اچھی پاشاقوں میں کچھ بہت بڑی نشستوں میں اور ایک بہت بڑا تخت نظر آیا بہت بڑا بادشاہ جس کی بہت ہلکی ڈاڑھی اور بہت بڑی مونچھیں‘بڑی زلفیں ‘ سر پر بہت بڑا تاج‘ دائیں طرف اس کے تلوار سونپیں محافظ ہر طرف سناٹا خاموشی ۔تھوڑی دیر کے بعد ایک آواز بلند ہوئی‘ باادب ہوشیار کہ بادشاہ سلامت اپنی گفتگو فرمائیں گے!پھربادشاہ نے اپنی گفتگو کی‘ کسی اور زبان میں تھی جو عمومی سمجھ میں نہیں آرہی تھی‘ اس گفتگو کے بعد تھوڑی ہی دیر میں ایک آدمی کو سامنے لایا گیا اور وہ بظاہر مجرم تھا‘ تھوڑی ہی دیر میں ایک بہت بڑا فرش بچھایا گیا جو چمڑے کا تھا جس کے ہر طرف کونے تھے‘ اس بندے کو وہاں باندھ دیا گیا پھر ایک جلاد نے آکر اس پر تلواریں برسانا شروع کردیں‘ پہلے اس کی ایک چیخ نکلی‘ پھر اس کی ساری چیخیں خون میں لت پت ہوگئیں‘ اب بادشاہ سلامت بہت خوشی سے قہقہے لگارہے تھے۔زندہ انسان کو بھوکے چوہوں کی خوراک بنادیابادشاہ کے علاوہ تمام لوگ سہمے ہوئے تھے اور سہمی سہمی نظروں سے سارا منظر دیکھ رہے تھے پتہ چلا کہ وہ بادشاہ کی فوج کا ایک بہت بڑا آدمی تھی جس نے بادشاہ کے ظلم و ستم کو نہ سہتے ہوئے علیحدگی کا اعلان کردیا‘ آج کے بعد بادشاہ سے میرا کوئی تعلق نہیں اور بادشاہ کو اپنے تعلق میں نہیں رکھنا چاہتا‘ لہٰذا میں بادشاہ کی ملازمت سے استعفیٰ دیتا ہوں‘ بس اس نے صرف استعفیٰ دیا‘ بادشاہ کے خلاف کوئی ایسی بات نہیں کی‘ نہ کوئی ایسی زبان استعمال کی لیکن بادشاہ کو یہ بات ناگوار گزری‘ پہلے قید کیا‘ قید بہت زیادہ اذیت دی‘ جیل کے قید خانہ میں ڈالا جہاں بہت بڑے بڑے چوہے تھے‘ ان چوہوں کو بھوکا رکھا ہوا تھا اور اس شخص کو اس جیل میں ڈال دیا‘ بھوکے چوہے اس پر جھپٹے‘ اس کے جسم کو نوچتے تھے‘ یہ بھاگتا الجھتا لیکن چوہے اس کے پیچھے تھے اور چوہوں نے تین دن‘  تین راتیں اس کے جسم کو نوچ ڈالا‘ اور چوہوں کا جب تک  پیٹ نہیں بڑھتا تھاوہ اس کو نہیں چھوڑتے تھے پھر بھوکے ہوتے تھے پھر اس کے جسم کو نوچتے تھے‘ نہ کھانا نہ پانی آخری اذیت میں رکھا اور تین دن کے بعد بادشاہ نے اپنی رعایا میں عمومی اعلان کیا کہ ایک باغی کا عبرتناک انجام اگر دیکھنا ہے تو آؤ میں تمہیں عبرتناک انجام دکھاتا ہوں۔ ناقابل برداشت‘ یہ منظر دکھاناختم کردیںبادشاہ نے عبرتناک انجام دکھانے کیلئے یہ سارا نظام بنایا‘ یہ سب کچھ میں سامنے دیکھ رہا تھا‘ اس سفید دھوئیں کے اندر اور وہ سفید دھواں سوفیصد ایک ڈاکومنٹری بن گیا تھا جس میں  حیرت انگیز طور پر ہر چیز واضح نظر آرہی تھی‘ محسوس ہورہا تھا کہ بادشاہ کی زندگی میں یہ سب کچھ تھا پھر تھوڑی ہی دیر ہوئی ایک اور منظر سامنے آیا کچھ لوگوں کی لائن لگی ہوئی ہے‘  بادشاہ نے ہاتھ میں تلوار پکڑی ہوئی ہے ‘ سب لوگوں کو لکڑی سے باندھا گیا تاکہ نہ بھاگ سکیں‘ نہ اپنی جگہ چھوڑ سکیں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بادشاہ اٹھا‘ اس نے اپنی تلوار نکالی‘ بادشاہ نے اپنی شاہی لباس پر ایک اور لباس پہنا ہوا تھا‘ معلوم ہوا یہ لباس اس لیے ہے کہ ان کا خون اور اس کی دھاڑیں بادشاہ کے شاہی لباس کو داغدار نہ کرے اور بادشاہ تلوار سے ان کے سر قلم کرتا جارہا تھا۔ ایک شخص پر تلوار کا وار ہلکا ہوا اس کی گردن لٹک گئی تو بادشاہ نے غصہ سے اس کے اوپر ایک اور وار کیا اور اتنا تیز وار کیا کہ وہی ایک وار ہی ساتھ کھڑے دوسرے کا سر بھی تن سے جدا کرگیا‘ یہ منظر خوفناک اور دردناک تھا میں اور میرے والد رحمۃ اللہ علیہ برداشت نہ کرسکے‘ آنکھوں کے سامنے چکر آنےلگے ‘آنکھیں بند کرلیں‘ آنکھیں بند کرتے ہی وہ سارا منظر ایک دم غائب ہوگیا‘ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا ہے اس سے پہلے کہ ظلم و ستم کی مزید کوئی کہانی دیکھیں ‘فوراً میں اس جن سےکہا اس کو بند کردے۔ظلمت زدہ پتھر جن کے گھر گیا تو کیا ہوااب اس جن نے کہا آپ نے سچ کہا یہ موتی (بڑا پتھر) دراصل اس کے سر کا تاج تھا اور قیمتی پتھر ہے ‘بادشاہبہت ظالم تھا اور اسی پتھر کو پہن کر سارے ظلم و ستم کرتا تھا اور یہ سب کچھ وہ ساری زندگی کرتا رہا۔ میں نے فوراً وہ پتھر اس کو واپس کردیا‘ میں نے کہایہ میں نہیں لوں گا‘ اس پتھر میں نحوست‘ ظلمت اور خون ہی خون ہے اورخون بھی وہ جو مظلوم کا خون ہے لیکن اس جن نے وہ پتھر اپنے پاس رکھ لیا‘کچھ عرصہ کے بعد اس جن نے اپنا ایک واقعہ سنایا: کہنے لگے جب سے وہ پتھر میرے گھر میں گیا ہے گھر میں  بیماریاں‘ تکالیف‘ مشکلات‘ مسائل‘ ناکامیاں طرح طرح کے ظلم وستم اور دکھ میری زندگی میں شامل ہوگئے ہیں اور میرا گھر سارا کا سارا اسی ظلم و ستم اور مسائل میں الجھا ہوا ہے اور مجھے آ پ کا احساس ہوا کہ آپ نے آخر اس پتھر کو کیوں نہ قبول کیا ‘ اس پتھر کو ہم نے اپنی زندگی میں شامل کرلیا‘ آپ نے شامل نہ کیا۔زندگی میں شامل ہونے والی ہرچیز کا اثر میں نے اس جن کو کہا ہماری زندگی پر ہر چیز کا اثر ہوتا ہے چاہے وہ محسوس ہو یا نہ ہو‘ ہر چیز ہماری زندگی پر اثر رکھتی ہے اور ایک تاثر رکھتی ہے‘ اس کی وجہ سے ہماری زندگی میں خیر بھی شامل ہوتی ہےا ور شر بھی شامل ہوتا ہے‘ منفی اثرات اور مثبت اثرات بھی ہوتے ہیں۔ لہٰذا اپنی زندگی میں کوئی بھی ایسی چیز شامل نہیں کرنی چاہیےجس میں شر کا ذرہ بھی ہو‘ اپنی زندگی میںہر چیز کو سوچ سمجھ کر شامل کرنا چاہیے یہ دیکھنا چاہیے کہ میں حاصل کیا کررہاہوں؟ کیا یہ چیز میری زندگی میںآکر میرے دکھوں‘ تکالیف ‘مشکلات اور مسائل کا ذریعہ بنے گی یا خوشیوں کا ذریعہ؟آئیں! ہم دیکھیں اور ضرور دیکھیں اور تسلی سے دیکھیں کہ زندگی بس ہر چیز کو پانے کا نام نہیں‘ پانے سے پہلے یہ دیکھیں کہ اس کو پانے سے میری زندگی میں سکھ‘ سکون‘مسائل‘ پریشانیاں تو نہیں آئیں گی‘ میں جن کو یہ ساری باتیں بتارہا تھا وہ حیرت سے دیکھ رہا تھا‘ میں نے جن کومزیدکہا کہ ابھی اٹھو اس پتھر کو گھر سے نکالو‘جاؤ دریا میں اسی جگہ رکھ کر آؤ جس جگہ سے لیا تھا۔ وہ اٹھا تھوڑی ہی دیر کے بعد واپس آگیا۔پانی کے اندر بادشاہ کی حاضری کہنے لگا: میں نےاپنے گھر سےپتھر لیا اور دریا کے اس حصے پر رکھ کر واپس آگیا‘ پھر جن نے ایک عجیب بات بتائی ‘کہنے لگا جب پتھر رکھنے گیا( لیتے ہوئے غور نہیں کیا) تو رکھتے ہوئے  میں نے غور کیا تو وہاںکچھ اور پتھر بھی تھے اور یہ بڑا موتی (بادشاہ کے سر کے تاج کا موتی) ان کے درمیان میں ڈھکا ہوا تھا‘ پانی کے باوجود تھوڑی دیر ہوتی تھی وہ پتھر گرم ہوجاتے تھے اور اس پتھر کو گرم کرتے ‘ اس پتھر کے گرم ہوتے ہی اس پتھر سے چیخیں نکلتیں چونکہ اب میں نے وہ بادشاہ کا چہرہ دیکھ لیا ہے اب تو مجھے احساس ہوا ہے کہ وہ چیخیں دراصل اسی بادشاہ کی تھیں ‘ میں نے اس دردناک منظر کو دیکھا پھر وہیں ان پتھروں کے درمیان مٹی کا وجود بنا کر بادشاہ کی وہ سفید دھوئیں والی حاضری کروائی چونکہ پانی ہمیں کچھ نہیں کہتا ‘ہم پانی کے درمیان بھی جگہ بنالیتے ہیں جو کہ سوفیصد خشک ہوتی ہے‘ ہمارے بے شمار جنات جو لاکھوں کروڑوں میں ہیں جو پانی کے اندر سمندر‘ دریا‘ نہروں اور جھیلوں میں رہتے ہیں‘ پانی انہیں کچھ بھی نہیں کہتا ‘ سب کچھ جو کچھ بھی ہے‘ وہ پانی کے اندر ہوتا ہے۔ ظالم بادشاہ اور موت کے بعد بربادیپھر میں نے وہ پانی کے اندر بادشاہ کی حاضری کروائی‘ بادشاہ سے پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا: ایک ایک شخص کی کھوپڑی پتھر بن چکی ہے‘ وہ تمام کھوپڑیاں مجھے روز تکلیف دیتی ہیں چونکہ یہ پتھر میری کھوپڑی یعنی تاج پر تھا اس لیے مجھے دن رات یہ اذیت ملتی ہے‘ جتنے لوگوں کو آج تک میں نے قتل کروایا یا اپنے ہاتھوں سے کیا وہ سب کچھ میرے وجود میں سرائیت کررہا ہے‘ میں اندھا‘ گونگا‘ بہرہ‘ اپاہج‘ ویران اور برباد ہوچکاہوں‘ میرا سب وجود ختم ہوچکا ہے اورموت کے بعد اب بربادی ہی بربادی ہے‘ ناکامی ہی ناکامی ہے۔ کوئی مجھے چھڑا نہیںسکتا‘ کوئی میرے قریب آنہیں سکتا‘ کوئی میرا ہمدرد ہمدم ساتھی نہیں۔ میں اکیلا تنہا ہوں اور میرا کوئی ساتھی نہیں‘ بس یہی میری زندگی ہے اور یہی میرا سب کچھ ہے۔میں دریا کے کنارے بیٹھا اس جن کی باتیں سن رہا تھا اور وہ سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا اور مجھے احساس ہوا کہ پانی کے کنارے بہت جنات رہتے ہیں ‘پانی کے کنارے  رہنے والے جنات میں اکثریت وہ ان جنات کی ہے جو شرپسند‘ گندے‘ غلیظ اور خبیث ہوتے ہیں جو گناہوں اور برائیوں کی طرف دعوت دیتے ہیں جو گناہوں اور برائیوں کی طرف مخلوق کو ورغلاتے ہیں جو گناہوں اور ناکامیوں کا سبق دیتے ہیں‘ اسی لیے پانی کے کنارے مظالم‘ دھوکے‘ ڈاکے‘ فریب‘ گناہ اور بدکاریاں اور ان کا وجود زیادہ ہوتا ہے۔ کشتی میں بیٹھ کر جو بھی سمندر‘ دریا‘ ندیاں پار کرتے ہیں‘ ہر کالے اور خبیث جن کی یہ چاہت ہوتی ہے کہ کسی طرح کشتی ڈوب جائے اس کا وجود ختم ہوجائے اور وہ شیطانی نظام سوفیصد ہمارے ہاتھ میں ہو تا‘ انسانوں کو تکلیف دینے کا کوئی لمحہ بھی ضائع نہ کریں‘ ہمارا ہر لمحہ انسانی وجود کے لیے اذیت دکھ‘ تکلیف‘ پریشانی‘ مشکلات اور مسائل کا ذریعہ اور یونہی زندگی مسائل اور پریشانیوں میں گزرتی چلی جائے۔ پانی کے کنارے رہنے والے جنات ہمیشہ صرف ایک چیز سوچتے ہیں کہ کس طرح لوگوں کو دکھ دیا جائے‘ پریشانی دی جائے‘ آپ کے علم میں ہے کہ پانی کے کنارے جادو بہت تیزی سے اثر کرتا ہے‘ جادو بہت تیزی سے اثر کرتا ہے اور جادو کا اثر حیرت انگیز طور پر تیر سے بھی زیادہ اور گولی سے بھی تیز ہوجاتا ہے۔ (جاری ہے)

 

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 678 reviews.